غزل
کم فرصتئ خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ، وہ شب یاد رہے گی
ہر چند ترا عہدِ وفا بھول گۓ ہم
وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شاخئ یک جنبشِ لب یاد رہے گی
پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمئ صحبتِ شب یاد رہے گی
گو ہجر کے لمحات بہت سخت تھے لیکن
ہر بات بعنوابِ طرب یاد رہے گی
0 Comments