غزل
دور فلک جب دہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو
کنجِ قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو
ریگِ رواں کی نرم تہوٕ کو چھیڑت ہے جب کوئ ہوا
سونے صحرا چیخ اٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو
آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھّر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو
مے خانے کا افسردہ ماحول تو یوں ہی تہتا ہے
خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو
ناصر میرے منہ کی باتیں یوں تو سچّے موتی ہیں
لیکن ان کی باتیں سن کر بھول گۓ سب باتوں کو
دور فلک جب دہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو
کنجِ قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو
ریگِ رواں کی نرم تہوٕ کو چھیڑت ہے جب کوئ ہوا
سونے صحرا چیخ اٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو
آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھّر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو
مے خانے کا افسردہ ماحول تو یوں ہی تہتا ہے
خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو
ناصر میرے منہ کی باتیں یوں تو سچّے موتی ہیں
لیکن ان کی باتیں سن کر بھول گۓ سب باتوں کو
0 Comments